غریب اور امیر کی دل چھو لینے والی سبق آموز کہانی

Sardi mein lakriyaan baant'te hue ameer aur ghareeb aadmi
دیہات میں محبت کا پھیلا ہوا صحن       


غریب اور امیر کی دل چھو لینے والی سبق آموز کہانی

ذیلی عنوان

دولت سے بڑھ کر انسانیت: ایک متاثر کن دیہاتی دوستیاں

ٹیگ لائن

سچی دولت وہ ہے جو دلوں میں بسے

کہانی تحریر
 محمّد مزمل شامی

خلاصہ

ایک بےبہا دیہی کہانی جہاں غریب آدمی اور امیر آدمی کی دو مختلف دنیا ملتیں ہیں، مگر مہربانی اور انسانی رشتہ ان کو قریب لاتا ہے۔ یہ کہانی دکھاتی ہے کہ دولت سے زیادہ ہمدردی اہم ہے۔


تعارف

زندگی عموماً معاشی خلا پیدا کرتی ہے، لیکن یہ کہانی بتاتی ہے کہ ایک چھوٹا سا عمل، ایک گویا جادو کی طرح، لوگوں کو قریب لا سکتا ہے۔ دیہات میں ایک امیر اور ایک غریب آدمی کی ملاقات ایک سبق آموز رشتہ میں بدل جاتی ہے۔


کرداروں کے پروفائلز

  • امیر آدمی: عیش و عشرت میں رہتا ہے، دل میں نرم دلی لیے۔ محسوس کرتا ہے کہ دولت خوشی نہیں لا سکتی۔

  • غریب آدمی: سادہ مگر دل کا سچا، غیرمتوقع مہمان نواز، محبت میں مالا مال۔

  • دیہاتی لوگ: ابتدائی میں فاصلہ رکھتے ہیں، بعد میں مہربانی اور اشتراک سے متحد ہوجاتے ہیں۔


جگہ کی تفصیل

ایک خوبصورت دیہات، برف سے ڈھکے پہاڑ، چھوٹی جھونپڑی اور ایک شاندار حویلی۔ سرد راتیں کاٹنے کے لیے لکڑیاں جلتی ہیں، مگر دلوں میں محبت کی روشنی سب سے زیادہ گرم ہے۔


کہانی

رات کی خاموشی گہری ہوتی جارہی تھی، برف کے گالے آسمان سے ایسے گر رہے تھے جیسے قدرت نے سفید چادر تان دی ہو۔ ہر طرف سردی کا راج تھا، درختوں پر برف جمی ہوئی تھی اور ہواؤں میں سناٹا بول رہا تھا۔ گاؤں کے ایک کونے میں ایک پرانی، ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی تھی جہاں بشیر نامی غریب آدمی اپنے دو بچوں اور ایک بیمار بیوی کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کی جھونپڑی کے کونے میں ایک چھوٹی سی انگیٹھی رکھی تھی، جس میں اب راکھ کے سوا کچھ نہ بچا تھا۔

بشیر سردی سے کانپ رہا تھا۔ اُس نے اپنے بچوں کو پرانے کمبلوں میں لپیٹ رکھا تھا۔ مگر سردی تھی کہ ہڈیوں تک اُتر رہی تھی۔

"اب کیا کروں؟ لکڑیاں بھی ختم ہو گئیں اور پیسے بھی نہیں بچے..." بشیر نے خود سے بڑبڑاتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھا۔ اچانک دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔

ٹھک ٹھک۔

بشیر چونکا۔ اتنی رات گئے کون ہو سکتا ہے؟ جب دروازہ کھولا تو سامنے گاؤں کا مشہور امیر زمیندار میاں سراج کھڑا تھا۔ ہاتھ میں لکڑیوں کا گٹھا اور چہرے پر نرمی کا رنگ۔

"السلام علیکم، بشیر۔ مجھے پتا چلا تمہارے پاس لکڑیاں نہیں ہیں، یہ لے لو۔ سردی میں کوئی یوں نہ ٹھٹھرتا رہے۔"

بشیر کی آنکھوں میں حیرت اور تشکر کی لہر دوڑ گئی۔ وہ تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میاں سراج، جو اپنی حویلی سے کم ہی نکلتا تھا، اس کے در پر آ سکتا ہے۔

"جناب... آپ؟ یہ... یہ لکڑیاں؟ یہ تو بہت بڑی مہربانی ہے!" بشیر نے لرزتی آواز میں کہا۔

میاں سراج نے مسکرا کر کہا، "انسانی رشتے دولت سے نہیں، دل سے بنتے ہیں۔ اور کوئی دل سے دے، تو وہ سب سے قیمتی ہوتا ہے۔"

دونوں اندر بیٹھ گئے۔ آگ جلائی گئی، اور بشیر نے پرانی چائے دان سے چائے بنائی۔ چائے سادہ تھی، مگر ماحول میں جو گرم جوشی تھی، وہ میاں سراج نے کبھی اپنی حویلی میں نہیں دیکھی تھی۔

"تمہارے بچے بہت پیارے ہیں۔" میاں سراج نے کہا، چائے کی چسکی لیتے ہوئے۔

بشیر نے مسکرا کر کہا، "جناب، ہم غریبوں کے پاس دعائیں ہوتی ہیں، اور دعاؤں میں اثر بہت ہوتا ہے۔"

اگلی صبح بشیر جنگل کی طرف نکلا۔ وہاں سے چند بیریاں، کچھ سوکھے پھول، اور بیوی کے ہاتھ سے بنے اون کے موزے لے کر واپس آیا۔ وہ سیدھا میاں سراج کی حویلی پہنچا۔

"جناب، یہ آپ کی محبت کا بدلہ ہے۔ یہ معمولی سا تحفہ ہے، لیکن دل سے ہے۔"

میاں سراج نے وہ ٹوکری پکڑی، اُس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ "بشیر، تم نے مجھے آج ایک نئی سوچ دی ہے۔ تم نے سکھایا کہ دینے کے لیے دولت نہیں، نیت چاہیے۔"

اس دن کے بعد دونوں کی دوستی گاؤں بھر میں مشہور ہو گئی۔ لوگ پہلے حیران ہوئے، پھر متاثر۔ میاں سراج نے گاؤں میں ایک لکڑی کی وال آف کائنڈنیس بنائی جہاں ہر شخص ضرورت کی اشیاء رکھ سکتا تھا۔ بشیر کو اس کا پہلا منتظم بنایا گیا۔

کچھ ہی دنوں میں دیہات میں خوشحالی کا ماحول بن گیا۔ کوئی بھوکا نہ رہا، کوئی اکیلا نہ رہا۔ بچے کھیلتے کھیلتے بشیر اور میاں سراج کی دوستی کے قصے سناتے، جیسے وہ کوئی دیومالائی کردار ہوں۔

ایک دن بشیر نے کہا، "سراج بھائی، آپ کی دولت نے تو سب کچھ بدلا، مگر دل آپ کا سب سے قیمتی ہے۔"

میاں سراج نے ہنستے ہوئے جواب دیا، "بشیر، اصل دولت تمہارے پاس تھی، مجھے تو صرف اسے پہچاننا تھا۔"

یہ کہانی ختم تو ہو گئی، لیکن دیہات میں آج بھی لکڑیوں کی وہ دیوار موجود ہے—جہاں انسانیت کے تحفے بغیر قیمت کے ملتے ہیں۔

اختتام

آج وہ دیہات انسانیت کا استعارہ ہے۔ دیوارِ مہربانی جیسی کہانیاں یہاں بھی حقیقت بن گئی ہیں—دے لو، لو لو، بس دل سے۔


کہانی کا اخلاق

سچی دولت وہ ہے جو دوسروں کے دل جیتے—ذاتی اثاثے نہیں۔


اہم اقتباسات

  • "یہ لکڑیاں لو، برف میں جلاؤ"

  • "یہ سینہ سے نکلا تحفہ ہے"

  • "دولت وہ نہیں جو آپ کے پاس ہو، بلکہ جو آپ بانٹیں"


عموماً پوچھے جانے والے سوالات

کہانی کا مقصد کیا ہے؟
یہ سمجھانا کہ دولت سے بڑھ کر مہربانی ہے، جو سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔

یہ کیسے موجودہ دور سے میل کھاتی ہے؟
آج بھی لوگ وال آف کائنڈنیس جیسی چھوٹی اما طاقتور جدت لیتے ہیں—جیسے لیپ سائیکل میں روزگار بانٹنا یا کمیونٹی کی مدد کرنا


مصنف کی سوانحِ حیات

M Muzamil Shami, ایک دل چسپ قصہ نویس، خیرات و انسانیت کے موضوعات پر لکھتا ہے۔ اس کا کام سادہ زبان میں بڑا اثر دکھاتا ہے۔


 عمل کی اپیل

 کیا آپ نے کبھی کسی کی مدد کی؟ نیچے کمنٹ میں اپنا تجربہ لکھیں—آئیے مل کر تحریک بنائیں!

Post a Comment

0 Comments