ننھے بکروں کی ہوشیاری اور بھیڑیے کی شکست — اردو سبق آموز کہانی
چالاک بھیڑیا ہار گیا ننھے بکروں سے – سبق آموز کہانی
ذیلی عنوان
ایک سبق آموز کہانی جہاں ذہانت اور اتحاد نے درندے کو شکست دی
ٹیگ لائن
جیت اُن کی ہوتی ہے جو مل کر چالاکی سے حالات کا مقابلہ کریں
محمّد مزمل شامی
خلاصہ
ننھے بکرے اور ان کی ماں جنگل کے کنارے ایک پیارے سے گھر میں رہتے ہیں۔ ایک دن ماں بکری کی غیر موجودگی میں ایک چالاک بھیڑیا بچوں کو دھوکہ دے کر کھانے کی کوشش کرتا ہے، مگر بچوں کی ہوشیاری، اتحاد اور حوصلے نے ساری چالاکی ناکام بنا دی۔ یہ کہانی بچوں کو حفاظت، سچائی، اور ذہانت کا سبق دیتی ہے۔
تعارف
بچوں کی اردو کہانیاں نسل در نسل سنی اور سنائی جاتی رہی ہیں۔ آج ہم آپ کے لیے لائے ہیں ایک کلاسک مگر ہمیشہ تازہ رہنے والی کہانی، جو نہ صرف دلچسپ ہے بلکہ سبق آموز بھی۔ اس میں مقابلہ ہے معصومیت اور مکاری کا، دھوکہ اور دانش کا۔
کرداروں کے پروفائلز
-
ماں بکری: پیار کرنے والی، خبردار اور سمجھدار۔
-
سات ننھے بکرے: ہر ایک الگ خصوصیات کے ساتھ — ایک بہادر، ایک ہوشیار، ایک نڈر۔
-
بھیڑیا: مکّار، چالاک، موقع پرست۔
جگہ کی تفصیل
جنگل کے کنارے ایک چھوٹا سا پیارا سا کاٹیج، جہاں سبز گھاس، ٹھنڈی ہوائیں اور پرندوں کی چہچہاہٹ ہر وقت موجود ہوتی ہے۔ مگر جنگل کی گہرائی میں خطرہ چھپا بیٹھا ہے — ایک چالاک درندہ۔
کہانی
"بچوں کی ہوشیاری – بھیڑیے کی مکاری پر بھاری"
ایک خوبصورت وادی میں، جہاں پھولوں کی خوشبو فضا کو مہکاتی تھی اور پرندوں کی چہچہاہٹ ہر صبح کو مسرّت سے بھر دیتی تھی، ایک پیاری بکری اپنے سات ننھے، شرارتی مگر فرمانبردار بکروں کے ساتھ ایک جھونپڑی میں رہتی تھی۔ وہ ان سے بےحد محبت کرتی تھی اور ہمیشہ ان کی دیکھ بھال اور حفاظت کا خاص خیال رکھتی تھی۔
ہر روز صبح وہ ان کے لیے تازہ گھاس اور پھل چننے جنگل میں جاتی، مگر جانے سے پہلے وہ ہمیشہ بچوں کو پیار سے سمجھاتی:
"میرے پیارے بچو، یاد رکھنا، جب تک میں واپس نہ آؤں دروازہ کسی اجنبی کے لیے نہ کھولنا۔ خاص طور پر بھیڑیے سے بچنا، وہ چالاک ہے اور تمہیں دھوکہ دے سکتا ہے!"
بچے بولے:
"جی ماں! ہم صرف آپ کی میٹھی آواز اور سفید پاؤں کو پہچانیں گے!"
ماں بکری مسکرا کر جنگل کی طرف روانہ ہو گئی۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ دروازے پر زور سے دستک ہوئی۔
"بچو، دروازہ کھولو! تمہاری ماں آئی ہے!"
لیکن آواز کھردری اور کرخت تھی۔
ننھے بکروں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، پھر سب مل کر بولے:
"نہیں، تم ہماری ماں نہیں ہو! اس کی آواز تو میٹھی اور نرم ہے۔ تم تو بھیڑیا ہو!"
بھیڑیا حیران رہ گیا کہ بچوں نے فوراً پہچان لیا۔ وہ دانت پیس کر بولا:
"اب مجھے انہیں چالاکی سے دھوکہ دینا ہوگا!"
وہ قریبی گاؤں گیا اور ایک دودھ والے سے چاک لے کر کھا گیا تاکہ اس کی آواز نرم ہو جائے۔ پھر دوبارہ بکری کے گھر پہنچا۔
"بچو، دروازہ کھولو! تمہاری ماں واپس آ گئی ہے!"
اب کی بار آواز واقعی بہت نرم تھی۔
بچے تھوڑے الجھے، مگر سب سے چھوٹے بکرے نے احتیاط سے دروازے کی نیچے سے جھانکا اور چیخ مار کر کہا:
"رکو! یہ ہماری ماں نہیں ہو سکتی! اس کے تو کالے کالے پنجے ہیں! ہماری ماں کے پاؤں تو سفید ہوتے ہیں!"
بھیڑیا غصے سے چلایا، مگر پھر گاؤں کے ایک نانبائی کے پاس گیا، اور کہا:
"میرے پاؤں پر آٹا لگا دو تاکہ سفید لگیں!"
نانبائی نے ڈر کے مارے ایسا ہی کیا۔ بھیڑیا تیسری بار آیا، آواز بھی نرم تھی اور پاؤں بھی سفید۔
اب بچے کنفیوژ ہو گئے۔ آواز اور پاؤں، دونوں ماں جیسے تھے۔
"کیا واقعی ماں آگئی ہے؟" ایک بکرے نے سوال کیا۔
"چلو دروازہ تھوڑا سا کھول کر دیکھتے ہیں!"
جیسے ہی بچوں نے دروازہ آہستہ سے کھولا، بھیڑیا فوراً اندر گھس آیا۔ سب بچے ادھر اُدھر بھاگے، کوئی پردے کے پیچھے، کوئی الماری میں، کوئی صندوق میں اور سب سے چھوٹا کچن کی گھڑونچی میں چھپ گیا۔
بھیڑیا ان میں سے چھ کو ڈھونڈ کر نگل گیا اور اطمینان سے جھونپڑی سے نکل گیا۔ چھوٹا بکرہ خاموشی سے گھڑونچی میں چھپا رہا۔
تھوڑی دیر بعد ماں بکری واپس آئی۔ گھر کا حال دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے بچوں کو آواز دی، مگر کوئی جواب نہ آیا۔ آخرکار سب سے چھوٹے بکرے نے روتے ہوئے باہر آ کر سب کچھ بتایا۔
ماں بکری نے اپنے چھوٹے بچے کو گلے لگایا اور دونوں مل کر جنگل کی طرف روانہ ہو گئے تاکہ باقی بچوں کو ڈھونڈا جا سکے۔ جنگل میں کچھ ہی دور جا کر انہیں بھیڑیا ایک درخت کے نیچے سویا ہوا ملا۔ اس کا پیٹ بہت بڑا ہو گیا تھا۔
ماں بکری نے اپنے بچے سے کہا:
"جاؤ، قینچی لے کر آؤ!"
بچے دوڑا اور قینچی لے آیا۔ ماں نے نرمی سے بھیڑیے کا پیٹ چاک کیا تو سب بچے صحیح سلامت باہر نکل آئے۔
پھر انہوں نے بڑے پتھر جمع کیے اور بھیڑیے کے پیٹ میں ڈال دیے اور دوبارہ پیٹ کو سی دیا۔
جب بھیڑیا جاگا، اسے پیاس محسوس ہوئی۔ وہ پانی پینے ندی پر گیا۔ مگر جیسے ہی وہ جھکا، بھاری پتھروں کے وزن سے لڑکھڑایا اور ندی میں جا گرا۔
ندی کی تیز دھار نے اسے بہا کر دور لے گئی، اور وہ کبھی واپس نہ آیا۔
ماں بکری اور اس کے ساتوں بچے خوشی سے واپس اپنے جھونپڑی میں آئے، گلے لگے اور کہنے لگے:
"ہمیشہ ہوشیار رہیں گے، اور کبھی کسی اجنبی پر بھروسہ نہیں کریں گے!"
اختتام
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ دانش، اتحاد، اور ہمت سے کوئی بھی چالاک دشمن شکست کھا سکتا ہے۔
کہانی کا اخلاق
"دھوکہ اور چالاکی عارضی کامیابی دیتی ہے، مگر ہوشیاری اور اتحاد مستقل جیت دلاتے ہیں۔"
اہم اقتباسات
-
"تم ہماری ماں نہیں ہو! اس کی آواز تو میٹھی ہے!"
-
"دیکھو! یہ بھیڑیا ہے! اس کے پاؤں کالے ہیں!"
-
"اب!" — جیسے ہی سب نے پانی انڈیلا
عموماً پوچھے جانے والے سوالات
بچوں نے بھیڑیے کو کیسے پہچانا؟
آواز اور پاؤں کی شناخت سے۔
بھیڑیا کیسے بھاگا؟
ابلتے پانی میں گر کر جل گیا اور جنگل کی طرف بھاگ گیا۔
کہانی کا سب سے اہم سبق کیا ہے؟
ہوشیاری اور اتحاد سے بڑا کوئی ہتھیار نہیں۔
مصنف کی سوانح حیات
M Muzamil Shami ایک جدید اردو کہانی نویس ہیں، جو کلاسک کہانیوں کو نئے انداز میں بیان کر کے بچوں کو نہ صرف تفریح فراہم کرتے ہیں بلکہ انہیں قیمتی اسباق بھی سکھاتے ہیں۔
عمل کی اپیل
کیا آپ کو یہ کہانی پسند آئی؟ اپنے بچوں کو سنائیں، سوشل میڈیا پر شیئر کریں، اور مزید دل کو چھو لینے والی کہانیوں کے لیے ہمارے بلاگ کا وزٹ کریں!
کیا آپ نے بھی کوئی ایسی کہانی سنی ہے جہاں ہوشیاری نے درندگی کو ہرایا ہو؟ کمنٹس میں بتائیں!
0 Comments